پاکستان میں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کے حملے کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سے تقریباً چار سو افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ دو سو سے تین سو افراد روزانہ مستقل معذوری کا شکار ہو رہے ہیں۔

27th Oct 2020

کراچی میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کی طرز پر فالج کے علاج کا اسپتال قائم کیا جائے

کراچی: پاکستان میں روزانہ ایک ہزار افراد فالج کے حملے کا شکار ہو رہے ہیں جن میں سے تقریباً چار سو افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ دو سو سے تین سو افراد روزانہ مستقل معذوری کا شکار ہو رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی جیسے شہر میں قومی ادارہ برائے امراض قلب کی طرز پر فالج کے علاج کا ہسپتال قائم کیا جائے، ملک کے تمام بڑے اور ضلعی اسپتالوں میں فالج کے علاج کے مراکز قائم کیے جائیں اور اور ملیریا ٹی بی اور ایچ آئی وی ایڈز کی طرز پر پر قومی اور صوبائی سطح پر فالج کے کے مرض سے بچاؤ کے پروگرامات شروع کیے جائیں۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر روی شنکر، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے سابق صدر پروفیسر محمد واسع، پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی کے رکن ڈاکٹر بشیر سومرو اور پاکستان اسٹروک سوسائٹی کے نائب صدر ڈاکٹر عبد المالک نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا-

پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے اس موقع پر بتایا کہ کہ پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے 12سو افراد فالج سے متاثر ہو رہے ہیں, 15 سال پہلے یہ تعداد محض ڈھائی سو تھی، پاکستان میں روزانہ فالج کے نتیجے میں 400 افراد زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ، کورونا وائرس کے بعد مارچ سے اب تک فالج سے متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہو گیا ہے ، صوبائی حکومتوں کو فالج کی بیماری پر قابو پانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ضلعی اسپتالوں میں فالج یونٹس قائم کرنے ہوں گے اس حوالے سے ہم حکومت اور ہیومن ریسورس اور عملے کی تربیت دینے کے لیے تیار ہیں، موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے فالج کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہیں۔

پروفیسر محمد واسع نے کہا کہ جیسے جیسے ملک میں کرپشن بڑھ رہی ہے ویسے ہی بلکہ اس سے بھی کہیں تیزی سے فالج کی بیماری بڑھتی جا رہی ہے ، پاکستان میں اتنا نقصان دوسری بیماریاں نہیں کر رہیں جتنا فالج کا مرض کر رہا ہے، 15 سال پہلے سروے کے مطابق پاکستان میں ہر ایک لاکھ افراد میں سے ڈھائی سو افراد فالج کے حملے کا شکار ہو رہے تھے اور اب نئے سروے کے مطابق یہ تعداد 12 سو تک جا پہہنچی ہے ، اسی طرح پاکستان میں فالج کی بیماری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں 400 افراد روزانہ مر جاتے ہیں اور جو 600 افراد بچ جاتے ہیں ان میں سے بھی ایک چوتھائی زندگی بھر کے لیے معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں ۔

ڈاکٹر محمد واسع کا کہنا تھا کہ پاکستان کی دس کروڑ آبادی میں فالج کے رسک فیکٹرز موجود ہیں، ان دس کروڑ افراد کو فالج کے حملے سے محفوظ رکھا جا سکتا ہے اگر ایسا نہ کیا تو ان میں سے بڑی تعداد فالج کی بیماری کا شکار ہو سکتی ہے ، انہوں نے کہا کہ موبائل ایپلیکیشن کے ذریے فالج کے مریضوں کا ڈیٹا اکھٹا کر رہے ہیں ، صوبائی حکومتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور دیگر بیماری کی روک تھام کے لیے بنائے گئے پروگرامات کی طرز پر فالج کے کنٹرول کے لیے بھیپروگرام شروع کرنا ہوگا، انہوں نے کہا کہ ضلعی اسپتالوں میں اسٹروک یونٹس قائم کرنے کی ضرورت ہے ہماری سوسائٹی اس سلسلے میں ڈاکٹروں ، نرسز اور ایمبولینسز کے عملے کو تربیت دینے اور ہر طرح کے تعاون کرنے کو تیار ہے۔

ڈاکٹر بشیر سومرو نے کہا کہ کورونا میں شریانیں تنگ ہونے اور خون جمنے کے امکانات بڑح جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مارچ سے لے کر اب تک فالج کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے ، انہوں نے کہا کہ فالج سے متاثرہ افراد کے اہل خانہ کو احتیاط کی ضرورت ہے، یہ مسل در نسل چلنے والی بیماریاں ہیں ، اس لیے اہل خانہ کو بھی اپنا چیک اپ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹر عبد المالک نے کہا کہ دل کی بیماریوں کی طرز پر فالج کی بیماری اور اس کے علاج کے لیے ایک مکمل اسپتال ہونا چاہیے فالج کی بیماری کی شرح بھی دل کی بیماریوں کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ عالمی یوم فالج سے متعلق آگہی مہم چلا رہے ہیں اور 20 شہروں میں آگہی کے لیے سرگرمیاں منعقد کی جا رہی ہیں، 16 شہروں میں مفت اسکریننگ کیمپ منعقد کیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر روی شنکر نے کہا کہ ہمیں اسٹروک کی علامات کا علم ہونا چاہیے اگر ہمیں علامات کا علم ہوگا تو علاج میں آسانی ہوگی، فالج کے حملے کے نتیجے میں متاثرہ فرد کا جلد سے جلد اسپتال پہنچنا اسے معذوری سے بچا سکتا ہے اور یہ مریض کے زندگی کے لیے ضروری ہے۔

اس موقع پر فالج کے مرض اور اس کی علامات سے آگاہی کے لیے واک منعقد کی گئی جس کے شرکا نے فالج کے مرض کی آگاہی کے لیے بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *